آبلہ پا کوئی گزرا تھا جو پچھلے سن میں
سرخ کانٹوں کی بہار آئی ہے اب کے بن میں
دیکھنا رنگ بدن یار کے پیراہن میں
چاندنی دودھ سی چھٹکی ہے مرے آنگن میں
دیکھنا دیدہ ورو آمد طوفان تو نہیں
ٹپکی ہے درد کی ایک بوند مرے دامن میں
میں ہم آغوش صنم تھا مگر اے پیر حرم
یہ شکن کیسے پڑی آپ کے پیرہن میں
کچھ نہ کچھ آج اسیروں نے کہا تو ہے ضرور
ایک اک گل سے لپٹتی ہے صبا گلشن میں
سہل اتنے بھی نہیں اے ستم ایجاد کہ ہم
تھام لیتے ہیں گریبان دوانے پن میں
سر تسلیم نہیں بازوئے قاتل کا جواب
آخرش مارے گئے خود بھی مسیحا ان میں
جا رہے ہو تو ذرا دیکھنا تم بھی مجروحؔ
میری آنکھیں وہیں زنداں کے کسی روزن میں
غزل
آبلہ پا کوئی گزرا تھا جو پچھلے سن میں
مجروح سلطانپوری