EN हिंदी
آنکھوں میں ویرانی سی ہے پلکیں بھیگی بال کھلے | شیح شیری
aaankhon mein virani si hai palken bhigi baal khule

غزل

آنکھوں میں ویرانی سی ہے پلکیں بھیگی بال کھلے

مظفر حنفی

;

آنکھوں میں ویرانی سی ہے پلکیں بھیگی بال کھلے
تو بے وقت پشیماں کیوں ہے ہم پر بھی کچھ حال کھلے

ترک وفا پر سوچا تھا حافظ صاحب سے بات کروں
اب ڈرتا ہوں جانے کیسی الٹی سیدھی فال کھلے

لاکھوں کا حق مار چکے ہو چین کہاں سے پاؤ گے
پیدل آگے سرکاؤ تو فرزیں کی بھی چال کھلے

باتوں سے تو ناصح کو ہم سیدھا سادہ سمجھے تھے
وہ تو اک دن مے خانے میں حضرت کے احوال کھلے

فریادوں نے اور بڑھا دی مدت بد عنوانی کی
بازو پھیلانے سے شاید بندھن ٹوٹیں جال کھلے

ہستی کی اس بھول بھلیاں میں جب تھم کر سوچا تو
اک پیچیدہ لمحے میں صد باب ماہ و سال کھلے

آپ مظفرؔ حنفی سے مل کر شاید مایوس نہ ہوں
دل کے صاف بصیرت گہری ذہن رسا اعمال کھلے