آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے
پوچھا نہ کبھو مجھ کو وہ بیمار کہاں ہے
نو خط تو ہزاروں ہیں گلستان جہاں میں
ہے صاف تو یوں تجھ سا نمودار کہاں ہے
آرام مجھے سایۂ طوبیٰ میں نہیں ہے
بتلاؤ کہ وہ سایۂ دیوار کہاں ہے
لاؤ تو لہو آج پیوں دختر رز کا
اے محتسبو دیکھو وہ مردار کہاں ہے
فرقت میں اس ابرو کی گلا کاٹوں گا اپنا
میاں دیجو اسے دم مری تلوار کہاں ہے
جن سے کہ ہو مربوط وہی تم کو ہے میمون
انسان کی صحبت تمہیں درکار کہاں ہے
دیکھوں جو تجھے خواب میں میں اے مہ کنعاں
ایسا تو مرا طالع بیدار کہاں ہے
سنتے ہی اس آواز کی کچھ ہو گئی وحشت
دیکھو تو وہ زنجیر کی جھنکار کہاں ہے
دن چھینے وو جب دیکھیو غارت گری اس کی
تب سوچیو خورشید کی دستار کہاں ہے
اس دن کے ہوں صدقے کہ تو کھینچے ہوے تلوار
یہ پوچھتا آوے وہ گنہ گار کہاں ہے
ہنستے تو ہو تم مجھ پہ ولیکن کوئی دن کو
روؤگے کہ وہ میرا گرفتار کہاں ہے
اے غم مجھے یاں اہل تعیش نے ہے گھیرا
اس بھیڑ میں تو اے مرے غم خوار کہاں ہے
جب تک کہ وہ جھانکے تھا ادھر مہر سے ہم تو
واقف ہی نہ تھے مہر پر انوار کہاں ہے
اس مہ کے سرکتے ہی یہ اندھیر ہے احساںؔ
معلوم نہیں رخنۂ دیوار کہاں ہے
غزل
آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے
عبدالرحمان احسان دہلوی