آ تیری گلی میں مر گئے ہم
منظور جو تھا سو کر گئے ہم
تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم
جوں شبنم چشم تر گئے ہم
پاتے نہیں آپ کو کہیں یاں
حیران ہیں کس کے گھر گئے ہم
اس آئینہ رو کے ہو مقابل
معلوم نہیں کدھر گئے ہم
گو بزم میں ہم سے وہ نہ بولا
باتیں آنکھوں میں کر گئے ہم
تجھ عشق میں دل تو کیا کہ ظالم
جی سے اپنے گزر گئے ہم
شب کو اس زلف کی گلی میں
لینے دل کی خبر گئے ہم
گنجائش مو بھی واں نہ پائی
دل پر دل تھا جدھر گئے ہم
جوں شمع اس انجمن سے بیدارؔ
لے داغ دل و جگر گئے ہم
غزل
آ تیری گلی میں مر گئے ہم
میر محمدی بیدار