آ رہی ہے شب غم میری طرف میرے لیے
ساقیا چشم کرم میری طرف میرے لیے
تھکنے لگتا ہوں تو آواز سی آتی ہے کوئی
اور دو چار قدم میری طرف میرے لیے
لوگ کہتے ہیں کہ ہو جاتی ہے دنیا رنگیں
اک نظر میری قسم میری طرف میرے لیے
پائلیں کوئے نگاراں میں کھنک اٹھتی ہیں
جب وہ رکھتے ہیں قدم میری طرف میرے لیے
جھلملاتے ہوئے تارے ہی سہی صبح فراق
ہیں تو کچھ دیدۂ نم میری طرف میرے لیے
ہائے وہ بیکسی عشق کہ دنیا تھی خلاف
دیر ہی تھا نہ حرم میری طرف میرے لیے
ہوگی کچھ ایسی ہی مجبورئ حالات شمیمؔ
التفات اب جو ہے کم میری طرف میرے لیے
غزل
آ رہی ہے شب غم میری طرف میرے لیے
شمیم کرہانی