EN हिंदी
آ کے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا | شیح شیری
aa ke ab jangal mein ye uqda khula

غزل

آ کے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا

سلیم احمد

;

آ کے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا
بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ

ریچھنی کو شاعری سے کیا غرض
تنگ ہے تہذیب ہی کا قافیہ

کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار
گیدڑی نے کب کوئی دوہا سنا

گورخر کی دھاریوں کو دیکھ لو
سوٹ چوپائے بھی لیتے ہیں سلا

لومڑی کی دم گھنی کتنی بھی ہو
ستر پوشی کو نہیں کہتے حیا

شہر میں ان کے جو گزرا تھا سلیمؔ
لکھ دیا ہے میں نے سارا ماجرا