آ گیا ایثار میرے حلقۂ احباب میں
پھر کسی شعلے نے پائی ہے نمو برفاب میں
کہہ رہی ہے ساحلوں سے ڈوبنے والے کی لاش
میں نے پایا ہے سکوں اک مضطرب گرداب میں
کانپ اٹھا ہوں ورود بارش موعودہ پر
غرق ہونے کو ہے سارا شہر سیل آب میں
میرے ہاتھوں میں اگر تقدیر صبح و شام ہو
تتلیاں تعبیر کی رکھ دوں کتاب خواب میں
خاک کے پتلے نے آخر کر دیا افشا اسے
دفن تھا جو راز اب تک سینۂ مہتاب میں
سامنے کی چیز میں آصفؔ نہیں کوئی کشش
تک نہ یوں حیرت سے اپنے عکس کو تالاب میں
غزل
آ گیا ایثار میرے حلقۂ احباب میں
اعجاز آصف