آ گئی دل کی لگی بڑھ کے رگ جاں کے قریب
قافلہ شوق کا ہے منزل ارماں کے قریب
آدمیت نہیں پھٹکی ترے درباں کے قریب
ورنہ آتا تو ہے انسان ہی انساں کے قریب
وضع پابندی و آزادیٔ ہستی توبہ
یعنی زنداں سے کہیں دور نہ زنداں کے قریب
جرأت افزائے سوال اے زہے انداز جواب
آتی جاتی ہے اب اس بت کی نہیں ہاں کے قریب
ہے تو کچھ حشر کی آمد کا ہمیں بھی کھٹکا
اس کے آثار تو ہیں گنج شہیداں کے قریب
مجھ کو معلوم ہوا اب کہ زمانہ تم ہو
مل گئی راہ سکوں گردش دوراں کے قریب
غم و اندوہ کا لشکر بھی چلا آتا ہے
ایک گھوڑ دوڑ سی ہے عمر گریزاں کے قریب
گریۂ غم کو ہے پلکوں کا اشارہ درکار
ایک امڈا ہوا طوفان ہے مژگاں کے قریب
جان کس کس کو سنبھالے کہ سب اجزائے وجود
ہیں پریشانیٔ خاطر سے پریشاں کے قریب
پاؤں دامن سے الجھتے ہیں خدا خیر کرے
ہاتھ رہتے ہیں کئی دن سے گریباں کے قریب
بھول جا خود کو کہ ہے معرفت نفس یہی
کوئی رہتا ہی نہیں سرحد عرفاں کے قریب
کثرت خار رہ شوق الٰہی توبہ
کہیں پہنچے تو نہیں روضۂ رضواں کے قریب
مرحبا بندگی آموز تصور تیرا
جس کے احسان سے پہونچا ہوں میں احساں کے قریب
طور کی چھیڑ ہوئی ہوش ربا ورنہ کلیم
کوئی پہونچا بھی تو تھا شعلۂ عریاں کے قریب
قدر افزائی ماحول وطن کیا کہنا
دام یوسف کے بہت آ گئے کنعاں کے قریب
اب تو ناطقؔ کا بس اتنا ہی پتا چلتا ہے
ہے کہیں گھر سے بہت دور بیاباں کے قریب
غزل
آ گئی دل کی لگی بڑھ کے رگ جاں کے قریب
ناطق گلاوٹھی