آ فصل گل ہے غرق تمنا ترے لیے
ڈوبا ہوا ہے رنگ میں صحرا ترے لیے
ساحل پہ سرو ناز کو دے زحمت خرام
بل کھا رہا ہے خاک پہ دریا ترے لیے
ایفائے عہد کر کہ ہے مدت سے بیقرار
روح وفائے وعدۂ فردا ترے لیے
شانوں پہ اب تو کاکل شب رنگ کھول دے
بکھری ہوئی ہے زلف تمنا ترے لیے
اٹھ چشم جاودانۂ ساغر فروش اٹھ
مچلی ہوئی ہے لرزش صہبا ترے لیے
اے آفتاب جلوۂ جاناں بلند ہو
کھویا ہوا ہے مطلع دنیا ترے لیے
موج شمیم سنبل و ریحاں کے درمیاں
وا ہے مصاحبت کا دریچا ترے لیے
آ اور داد دے کہ بہ ایں چشم حق نگر
کھائے ہوئے ہوں زیست کا دھوکا ترے لیے
سبزے کا فرش ابر کا خیمہ گلوں کا عطر
گلشن میں اہتمام ہے کیا کیا ترے لیے
طغیان گل شباب پہ بلبل خروش میں
اک حشر سا ہے باغ میں برپا ترے لیے
جوشؔ اور ننگ خدمت سلطان و پاس ہوش
یہ بھی کیے ہوئے ہے گوارا ترے لیے
غزل
آ فصل گل ہے غرق تمنا ترے لیے
جوشؔ ملیح آبادی