آ اپنے دل میں میری تمنا لیے ہوئے
شوق کلام و ذوق تماشا لیے ہوئے
دل لے کے خود کو رہتے ہیں کیا کیا لیے ہوئے
شیشے وہی تو ہیں مری دنیا لیے ہوئے
محرومیوں پہ دل کی مٹا جا رہا ہوں میں
ہے خاک تیرا نقش کف پا لیے ہوئے
تاریکی فضا کا شکایت گزار ہوں
سینے میں آفتاب سویدا لیے ہوئے
پہلے مرے سہارے پہ تھا کار و بار زیست
اب میں ہوں زندگی کا سہارا لیے ہوئے
جی چاہتا ہے عمر محبت نہ ختم ہو
مر جائیے کسی کی تمنا لیے ہوئے
اپنا وقار عشق کبھی آزما کے دیکھ
ہوگی جبین حسن بھی سجدا لیے ہوئے
خوش ہوں کہ جیسے گود میں ہے لعل شب چراغ
دامن میں اپنے لالۂ صحرا لیے ہوئے
نعش رواں ہوں زیست ہے میری فریب زیست
پھرتا ہوں زندگی کا جنازہ لیے ہوئے
جوش جنوں میں عالم وارفتگی نہ پوچھ
صحرا سے ہم گزر گئے صحرا لیے ہوئے
سر ان کے آستاں پہ جو پہنچے تو ہو یقیں
سودا لیے ہوئے ہے کہ سجدا لیے ہوئے
ہم طور پر گئے بھی تو اس شان سے گئے
موسیٰ کھڑے رہے ید بیضا لیے ہوئے
اے حسن میرے حال میں تو بھی شریک ہو
دونوں جہاں کا بار ہوں تنہا لیے ہوئے
بے پردہ بے تعین و بے نام دیکھ اسے
وہ تو ہے صرف نام کا پردا لیے ہوئے
سیمابؔ قدرداں ہیں مرے خان جانسٹھ
حاضر ہوا ہوں فکر کا ہدیا لیے ہوئے
غزل
آ اپنے دل میں میری تمنا لیے ہوئے
سیماب اکبرآبادی