خوار و رسوا تھے یہاں اہل سخن پہلے بھی
ایسا ہی کچھ تھا زمانے کا چلن پہلے بھی
مدتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
میں نے سیکھا تھا لہو رونے کا فن پہلے بھی
دل نواز آج بھی ہے نیم نگاہی تیری
دل شکن تھا ترا بے ساختہ پن پہلے بھی
آج اس طرح ملا تو کہ لہو جاگ اٹھا
یوں تو آتی رہی خوشبوئے بدن پہلے بھی
شاذؔ وہ جانے گا ان آنکھوں میں کیا کیا کچھ ہے
جس نے دیکھی ہو ان آنکھوں کی تھکن پہلے بھی

غزل
خوار و رسوا تھے یہاں اہل سخن پہلے بھی
شاذ تمکنت