EN हिंदी
یہی نہیں کہ فقط تری جستجو بھی میں | شیح شیری
yahi nahin ki faqat teri justuju bhi main

غزل

یہی نہیں کہ فقط تری جستجو بھی میں

صادق نسیم

;

یہی نہیں کہ فقط تری جستجو بھی میں
خود اپنے آپ کو پانے کی آرزو بھی میں

اداس اداس سر ساغر و سبو بھی میں
یم نشاط کی اک موج تند خو بھی میں

مجھی میں گم ہیں کئی تیرگی بکف راتیں
ضیا فروش سر طاق آرزو بھی میں

مجھی سے قائم و دائم ہیں گھر کے سناٹے
تمہاری بزم تمنا کی ہاؤ ہو بھی میں

نہاں مجھی میں ہے قاتل بھی اور مسیحا بھی
کہ چاک زخم بھی میں سوزن رفو بھی میں

خود اپنے آپ میں جھانکوں تو میں بھی میں نہ رہوں
نگاہ خود سے ہٹاؤں تو چار سو بھی میں

جو راہ چلتے مری سمت آنکھ بھی نہ اٹھائے
اسی کی بزم کا موضوع گفتگو بھی میں

تمہاری بزم سے اٹھنے کا بھی خیال مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے کا حیلہ جو بھی میں

طلسم دوری و قربت کو توڑ کر صادقؔ
پکارتا ہے کوئی آئنے سے تو بھی میں