عظمت فکر کے انداز عیاں بھی ہوں گے
ہم زمانے میں سبک ہیں تو گراں بھی ہوں گے
جن ستاروں کو خدا مان کے پوجا تھا کبھی
اب انہیں پر مرے قدموں کے نشاں بھی ہوں گے
کیسے رہ سکتی ہیں جنت کی فضائیں شفاف
خاک اڑانے کو ہمیں لوگ وہاں بھی ہوں گے
بے ستوں عظمت فرہاد کا مظہر ہے تو کیا
اہل دل کتنے ہی بے نام و نشاں بھی ہوں گے
دل کئی اور بھی دھڑکیں گے مرے دل کی طرح
اپنے قصے بحدیث دگراں بھی ہوں گے
یوں تو تزئین گل و غنچہ میں شامل ہیں سبھی
ہائے وہ رنگ جو اب حرف خزاں بھی ہوں گے
جب شگفت گل بادام کی رت آئے گی
کوئٹے کو نہیں بھولیں گے جہاں بھی ہوں گے
اولیں دید میں ہی اپنی نگاہیں کھو کر
زندگی بھر تری جانب نگراں بھی ہوں گے
خود نمائی کے لئے بنتے ہو مظلوم نسیمؔ
زخم کھائے ہیں تو کچھ ان کے نشاں بھی ہوں گے

غزل
عظمت فکر کے انداز عیاں بھی ہوں گے
صادق نسیم