کشتئ دل نذر طوفاں ہو گئی
ایک مشکل اور آساں ہو گئی
صبح دم شبنم کو جانے کیا ہوا
صحبت گل سے گریزاں ہو گئی
اس نظر کی سادگی تو دیکھیے
جو ترے جلووں پہ قرباں ہو گئی
پھول کو حیرت زدہ سا دیکھ کر
ہر کلی گلشن میں حیراں ہو گئی
میرے پہلو سے وہ اٹھ کر کیا گئے
دل کی دنیا سخت ویراں ہو گئی
دل کی پیہم بے قراری کے نثار
بڑھتے بڑھتے آفت جاں ہو گئی
دیکھ کر میری پریشانی کو عرشؔ
زندگی خود بھی پریشاں ہو گئی
غزل
کشتئ دل نذر طوفاں ہو گئی
عرش صہبائی