وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا
ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچھ اس لیے بھی کم نگہی کا گلا نہ تھا
دست خیال یار سے پھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا
ڈھونڈا اسے بہت کہ بلایا تھا جس نے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا
کچھ اس قدر تھی گرمئ بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا
کیسے کریں گے ذکر حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
غزل
وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
کشور ناہید

