EN हिंदी
وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا | شیح شیری
wo ajnabi tha ghair tha kis ne kaha na tha

غزل

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

کشور ناہید

;

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا

ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی
کچھ اس لیے بھی کم نگہی کا گلا نہ تھا

دست خیال یار سے پھوٹے شفق کے رنگ
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا

ڈھونڈا اسے بہت کہ بلایا تھا جس نے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا

کچھ اس قدر تھی گرمئ بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا

کیسے کریں گے ذکر حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا