دل بے تاب کو بہلانے چلے آئے ہیں
ہم سر شام ہی مے خانے چلے آئے ہیں
دل نے مشکل سے فراموش کیا تھا جن کو
لب پہ پھر آج وہ افسانے چلے آئے ہیں
بے بلائے تو یہاں رند نہ آتے ساقی
یاد فرمایا ہے صہبا نے چلے آئے ہیں
راہ مے خانہ سے غفلت میں گزر ہی جاتے
دیکھ کر رقص میں پیمانے چلے آئے ہیں
آج پینے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن
باتوں باتوں ہی میں مے خانے چلے آئے ہیں

غزل
دل بے تاب کو بہلانے چلے آئے ہیں
عرش صہبائی