EN हिंदी
امیڈ شیاری | شیح شیری

امیڈ

34 شیر

کہتے ہیں کہ امید پہ جیتا ہے زمانہ
وہ کیا کرے جس کو کوئی امید نہیں ہو

آسی الدنی




تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے

آغا شاعر قزلباش




اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

my heart is optimistic yet, its hopes are still alive
come to snuff it out, let not this final flame survive

احمد فراز




نئی نسلوں کے ہاتھوں میں بھی تابندہ رہے گا
میں مل جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا

آلوک یادو




وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

الطاف حسین حالی




مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

امیر قزلباش




جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی
اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

عزیز لکھنوی