EN हिंदी
تنز شیاری | شیح شیری

تنز

22 شیر

ہجو نے تو ترا اے شیخ بھرم کھول دیا
تو تو مسجد میں ہے نیت تری مے خانے میں

جگر مراد آبادی




رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

کلیم عاجز




سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ
یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں

کلیم عاجز




اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیمؔ
گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے

کلیم عاجز




بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان

ندا فاضلی




کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

ندا فاضلی




کہتی ہے اے ریاضؔ درازی یہ ریش کی
ٹٹی کی آڑ میں ہے مزا کچھ شکار کا

ریاضؔ خیرآبادی