EN हिंदी
رخسر شیاری | شیح شیری

رخسر

17 شیر

سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی

احمد فراز




جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

احمد حسین مائل




جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا

احمد مشتاق




مدت سے اک لڑکی کے رخسار کی دھوپ نہیں آئی
اس لئے میرے کمرے میں اتنی ٹھنڈک رہتی ہے

بشیر بدر




حاجت نہیں بناؤ کی اے نازنیں تجھے
زیور ہے سادگی ترے رخسار کے لیے

حیدر علی آتش




قامت تری دلیل قیامت کی ہو گئی
کام آفتاب حشر کا رخسار نے کیا

حیدر علی آتش




رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا