EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سفر شوق ہے بجھتے ہوئے صحراؤں میں
آگ مرہم ہے مرے پاؤں کے چھالوں کے لیے

شہزاد احمد




سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے

شہزاد احمد




سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے

شہزاد احمد




شاید اسی باعث ہوئیں پتھر مری آنکھیں
جو کچھ کہ مجھے دیکھنا تھا دیکھ لیا ہے

شہزاد احمد




شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو

شہزاد احمد




شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو

شہزاد احمد




شب ڈھل گئی اور شہر میں سورج نکل آیا
میں اپنے چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی

شہزاد احمد