سفر شوق ہے بجھتے ہوئے صحراؤں میں
آگ مرہم ہے مرے پاؤں کے چھالوں کے لیے
شہزاد احمد
سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے
شہزاد احمد
سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے
شہزاد احمد
شاید اسی باعث ہوئیں پتھر مری آنکھیں
جو کچھ کہ مجھے دیکھنا تھا دیکھ لیا ہے
شہزاد احمد
شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو
شہزاد احمد
شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو
شہزاد احمد
شب ڈھل گئی اور شہر میں سورج نکل آیا
میں اپنے چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی
شہزاد احمد