EN हिंदी
ولی اللہ محب شیاری | شیح شیری

ولی اللہ محب شیر

15 شیر

دریائے محبت سے محبؔ لے ہی کے چھوڑی
مجھ اشک نے آخر در نایاب کی میراث

ولی اللہ محب




درس علم عشق سے واقف نہیں مطلق فقیہ
نحو ہی میں محو ہے یا صرف ہی میں صرف ہے

ولی اللہ محب




دیں سے پیدا کفر ہے اور نور شکل نار ہے
رشتہ جب سبحے سے نکلا صورت زنار ہے

ولی اللہ محب




دیوانگی کے سلسلہ کا ہوئے جو مرید
اس گیسوئے دراز سوا پیر ہی نہیں

ولی اللہ محب




دلوں کا فرش ہے واں پاؤں رکھنے کی کہاں جاگہ
گزرتا ہے ترے کوچے سے پہلے ہی قدم سر سے

ولی اللہ محب




دوستی چھوٹے چھڑائے سے کسو کے کس طرح
بند ہوتا ہی نہیں رستہ دلوں کی راہ کا

ولی اللہ محب