لفظ کی قید سے رہا ہو جا
آ مری آنکھ سے ادا ہو جا
پھینک دے خشک پھول یادوں کے
ضد نہ کر تو بھی بے وفا ہو جا
خشک پیڑوں کو کٹنا پڑتا ہے
اپنے ہی اشک پی ہرا ہو جا
چھیڑ اس حبس میں مہکتی غزل
اور در کھولتی ہوا ہو جا
سنگ برسا رہے ہیں شہر کے لوگ
تو بھی یوں ہاتھ اٹھا دعا ہو جا
خود کو پہچان ادھر ادھر نہ بھٹک
اپنے مرکز پہ دائرہ ہو جا
اور پھر ہو گیا میں آئینہ رو
اس نے اک بار ہی کہا ہو جا
کہیں اندر سے آج بھی توقیرؔ
اک صدا آتی ہے مرا ہو جا
غزل
لفظ کی قید سے رہا ہو جا
توقیر تقی