ہیں وہی انساں اٹھاتے رنج جو ہوتے ہی کج
ٹیڑھی ہو کر ڈوبتی ہے ناؤ اکثر آب میں
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
گو ہم شراب پیتے ہمیشہ ہیں دے کے نقد
لیکن مزا کچھ اور ہی پایا ادھار میں
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
گریباں ہم نے دکھلایا انہوں نے زلف دکھلائی
ہمارا سمجھے وہ مطلب ہم ان کا مدعا سمجھے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
ایک مدت میں بڑھایا تو نے ربط
اب گھٹانا تھوڑا تھوڑا چاہئے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
دھر کے ہاتھ اپنا جگر پر میں وہیں بیٹھ گیا
جب اٹھے ہاتھ وہ کل رکھ کے کمر پر اپنا
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
ڈرائے گی ہمیں کیا ہجر کی اندھیری رات
کہ شمع بیٹھے ہیں پہلے ہی ہم بجھائے ہوئے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
چاہنے والوں کو چاہا چاہئے
جو نہ چاہے پھر اسے کیا چاہئے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
بھول کر لے گیا سوئے منزل
ایسے رہزن کو رہنما کہیے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی
اے شیخ یہ جو مانیں کعبہ خدا کا گھر ہے
بت خانہ میں بتا تو پھر کون جلوہ گر ہے
سردار گینڈا سنگھ مشرقی