آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا
سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا
صبا اکبرآبادی
دوستوں سے یہ کہوں کیا کہ مری قدر کرو
ابھی ارزاں ہوں کبھی پاؤ گے نایاب مجھے
صبا اکبرآبادی
گئے تھے نقد گرانمایۂ خلوص کے ساتھ
خرید لائے ہیں سستی عداوتیں کیا کیا
صبا اکبرآبادی
غلط فہمیوں میں جوانی گزاری
کبھی وہ نہ سمجھے کبھی ہم نہ سمجھے
صبا اکبرآبادی
غم دوراں کو بڑی چیز سمجھ رکھا تھا
کام جب تک نہ پڑا تھا غم جاناں سے ہمیں
صبا اکبرآبادی
ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی
تباہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا
صبا اکبرآبادی
اک روز چھین لے گی ہمیں سے زمیں ہمیں
چھینیں گے کیا زمیں کے خزانے زمیں سے ہم
صبا اکبرآبادی
اس شان کا آشفتہ و حیراں نہ ملے گا
آئینہ سے فرصت ہو تو تصویر صباؔ دیکھ
صبا اکبرآبادی