EN हिंदी
صبا اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

صبا اکبرآبادی شیر

35 شیر

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی




آپ آئے ہیں سو اب گھر میں اجالا ہے بہت
کہیے جلتی رہے یا شمع بجھا دی جائے

صبا اکبرآبادی




آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم

صبا اکبرآبادی




ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں
ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا

صبا اکبرآبادی




اچھا ہوا کہ سب در و دیوار گر پڑے
اب روشنی تو ہے مرے گھر میں ہوا تو ہے

صبا اکبرآبادی




ایسا بھی کوئی غم ہے جو تم سے نہیں پایا
ایسا بھی کوئی درد ہے جو دل میں نہیں ہے

صبا اکبرآبادی




اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

صبا اکبرآبادی




ازل سے آج تک سجدے کئے اور یہ نہیں سوچا
کسی کا آستاں کیوں ہے کسی کا سنگ در کیا ہے

صبا اکبرآبادی




بال و پر کی جنبشوں کو کام میں لاتے رہو
اے قفس والو قفس سے چھوٹنا مشکل سہی

صبا اکبرآبادی