ہوتے ہوتے نہ ہوا مصرع رنگیں موزوں
بند کیوں ہو گیا خون جگر آتے آتے
مرزا مسیتابیگ منتہی
جلا کر زاہدوں کو میکشوں کو شاد کرتے ہیں
گرا کر مسجدوں کو میکدے آباد کرتے ہیں
مرزا مسیتابیگ منتہی
جدھر کو مری چشم تر جائے گی
ادھر کام دریا کا کر جائے گی
مرزا مسیتابیگ منتہی
جس قدر وہ مجھ سے بگڑا میں بھی بگڑا اس قدر
وہ ہوا جامہ سے باہر میں بھی ننگا ہو گیا
مرزا مسیتابیگ منتہی
جسے ذوق بادہ پرستی نہیں ہے
مرے سامنے اس کی ہستی نہیں ہے
مرزا مسیتابیگ منتہی
کعبہ و دیر ایک سمجھتے ہیں رند پاک
پابند یہ نہیں ہیں حرام و حلال کے
مرزا مسیتابیگ منتہی
کبھی حرم میں کبھی بت کدے کو جاتا ہوں
زمین ڈھونڈھ رہا ہوں مزار کے قابل
مرزا مسیتابیگ منتہی