ہوتے ہوتے نہ ہوا مصرع رنگیں موزوں
بند کیوں ہو گیا خون جگر آتے آتے
مرزا مسیتابیگ منتہی
آیا پیام وصل یکایک جو یار کا
معلوم یہ ہوا کہ گئے دن زوال کے
مرزا مسیتابیگ منتہی
ہے خوشی اپنی وہی جو کچھ خوشی ہے آپ کی
ہے وہی منظور جو کچھ آپ کو منظور ہو
مرزا مسیتابیگ منتہی
ہے دولت حسن پاس تیرے
دیتا نہیں کیوں زکوٰۃ اس کی
مرزا مسیتابیگ منتہی
دنیا کا مال مفت میں چکھنے کے واسطے
ہاتھ آیا خوب شیخ کو حیلہ نماز کا
مرزا مسیتابیگ منتہی
بوسہ جو مانگا بزم میں فرمایا یار نے
یہ دن دہاڑے آئے ہیں پگڑی اتارنے
مرزا مسیتابیگ منتہی
بال کھولے نہیں پھرتا ہے اگر وہ سفاک
پھر کہو کیوں مجھے آشفتہ سری رہتی ہے
مرزا مسیتابیگ منتہی
بعد مرنے کے ٹھکانے لگ گئی مٹی مری
خاک سے عاشق کی کیا کیا یار کے ساغر بنے
مرزا مسیتابیگ منتہی
اذاں دے کے ناقوس کو پھونک کر
تجھے ہر طرح کب پکارا نہیں
مرزا مسیتابیگ منتہی