بعد توبہ کے بھی ہے دل میں یہ حسرت باقی
دے کے قسمیں کوئی اک جام پلا دے ہم کو
مرزا ہادی رسوا
بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام
جھینپتا ہوں جو کہیں ذکر خدا ہوتا ہے
مرزا ہادی رسوا
دیکھا ہے مجھے اپنی خوشامد میں جو مصروف
اس بت کو یہ دھوکا ہے کہ اسلام یہی ہے
مرزا ہادی رسوا
دل لگانے کو نہ سمجھو دل لگی
دشمنوں کی جان پر بن جائے گی
مرزا ہادی رسوا
دلی چھٹی تھی پہلے اب لکھنؤ بھی چھوڑیں
دو شہر تھے یہ اپنے دونوں تباہ نکلے
مرزا ہادی رسوا
دبکی ہوئی تھی گربہ صفت خواہش گناہ
چمکارنے سے پھول گئی شعر ہو گئی
مرزا ہادی رسوا
ہنس کے کہتا ہے مصور سے وہ غارت گر ہوش
جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویر بھی ہو
مرزا ہادی رسوا
ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی
کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی
مرزا ہادی رسوا
ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہید ذکر درد و ماتم ہو گئیں
مرزا ہادی رسوا