EN हिंदी
مرزا اظفری شیاری | شیح شیری

مرزا اظفری شیر

26 شیر

اے مصور شتاب ہو کہ ابھی
اس کا نقشہ دھیان میں کچھ ہے

مرزا اظفری




اظفریؔ غنچۂ دل بند اور آئی ہے بہار
سیر گل کو کہ یہ شاید بہ تکلف کھل لے

مرزا اظفری




بہہ چکا خون دل آنکھ تک آ پہنچا سیل
روئے جا اور بھی اے دیدۂ تر دیکھیں تو

مرزا اظفری




بے غمی ترک علائق ہے سدا اظفریاؔ
جس کو دنیا سے علاقہ نہیں غم ناک نہیں

مرزا اظفری




دھانی جوڑے پہ ترے سانولے میں مرتا ہوں
مر بھی جاؤں تو کفن دیکھ کے کاہی دینا

مرزا اظفری




دل لیا تاب و تواں لے چکا جاں بھی لے لے
پاک کر ڈال بکھیڑا یہ سبھی جھنجھٹ کا

مرزا اظفری




ہے جانی تجھ میں سب خوبی پہ جاں سا
تو اک دم میں بچھڑ جاتا ہے مجھ سے

مرزا اظفری




ہم فراموش کی فراموشی
اور تم یاد عمر بھر بھولے

مرزا اظفری




ہم گنہ گاروں کے کیا خون کا پھیکا تھا رنگ
مہندی کس واسطے ہاتھوں پہ رچائی پیارے

مرزا اظفری