جب میں کہتا ہوں کہ نادم ہو کچھ اپنے ظلم پر
سر جھکا کر کہتے ہیں شرم و حیا سے کیا کہیں
مرزا آسمان جاہ انجم
جو کیا میں نے وہ سب کچھ تھا برا
آپ نے جو کچھ کیا اچھا کیا
مرزا آسمان جاہ انجم
خزاں رخصت ہوئی پھر آمد فصل بہاری ہے
گریباں خود بخود ہونے لگا ہے دھجیاں میرا
مرزا آسمان جاہ انجم
خدا کا گھر بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی ہے
صنم کدہ بھی ہے دل اپنا خانقاہ بھی ہے
مرزا آسمان جاہ انجم
خود بہ خود یک بہ یک چلے آئے
میں تو آنکھیں تلک بچھا نہ سکا
مرزا آسمان جاہ انجم
کچھ کہانی نہیں مرا قصہ
تم سنو اور کہا کرے کوئی
مرزا آسمان جاہ انجم
کچھ نہیں معلوم ہوتا دل کی الجھن کا سبب
کس کو دیکھا تھا الٰہی بال سلجھاتے ہوئے
مرزا آسمان جاہ انجم