بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
تری نگاہ کی ناوک فگن پناہ بھی ہے
سزا کے واسطے اقرار بھی گناہ بھی ہے
اور ایک تم سا کوئی دوسرا گواہ بھی ہے
خدا کا گھر بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی ہے
صنم کدہ بھی ہے دل اپنا خانقاہ بھی ہے
عجیب حال ہے دنیا پرست لوگوں کا
معاد کا بھی خیال اور فکر جاہ بھی ہے
الٰہی خضر کہوں عشق کو کہ غول طریق
کہ راہ بر بھی یہ ہے اور سد راہ بھی ہے
اسی پہ مرتے ہیں ہم اور اسی کو چاہتے ہیں
وہی ہے عالم و دانا وہی گواہ بھی ہے
گلے سے آ کے لپٹ جا خدا کو مان او بت
ہے آج تجھ پہ بھی جوبن عروج ماہ بھی ہے
مراد تجھ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں میں
ٹکڑ گدا ترے در کا گدا بھی شاہ بھی ہے
اگرچہ دل سے ہوں بندہ بتوں کا میں لیکن
زباں پہ کلمۂ تحریم لاالٰہ بھی ہے
گناہ بخش دے انجمؔ کے اے رحیم و کریم
کہ پر گناہ بھی ہے اور عذر خواہ بھی ہے
دکھائے گا کسے محشر میں اپنا منہ انجمؔ
سیاہ کار بھی ہے اور رو سیاہ بھی ہے
غزل
بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
مرزا آسمان جاہ انجم