ہزاروں گھر ہوئے ہیں اس سے ویراں
رہے آباد سرکار محبت
میر مہدی مجروح
اتنا مردود ہوں کہ ڈر ہے مجھے
قبر سے پھینک دے زمیں نہ کہیں
میر مہدی مجروح
آ ہی کودا تھا دیر میں واعظ
ہم نے ٹالا خدا خدا کر کے
میر مہدی مجروح
جان انساں کی لینے والوں میں
ایک ہے موت دوسرا ہے عشق
میر مہدی مجروح
کج ادائی یہ سب ہمیں تک تھی
اب زمانے کو انقلاب کہاں
میر مہدی مجروح
کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں
محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے
میر مہدی مجروح
کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
میر مہدی مجروح
کچھ ہو مجروح گھس چلو گھر میں
آج در اس کا ہے کھلا چوپٹ
میر مہدی مجروح
کیا ہماری نماز کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
میر مہدی مجروح