ذرا دیکھے کوئی دیر و حرم کو
مرا وہ یار ہرجائی کہاں ہے
میر مہدی مجروح
جان دینے کے سوا اور بھی تدبیر کروں
ورنہ یہ بات تو ہم اس سے سدا کہتے ہیں
میر مہدی مجروح
آمد آمد خزاں کی ہے شاید
گل شگفتہ ہوا چمن میں ہے
میر مہدی مجروح
اب رقیب بوالہوس ہیں عشق باز
دل لگانے سے بھی نفرت ہو گئی
میر مہدی مجروح
ابر کی تیرگی میں ہم کو تو
سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب
میر مہدی مجروح
اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ
پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب
میر مہدی مجروح
ایک دل اور خواست گار ہزار
کیا کروں یک انار صد بیمار
میر مہدی مجروح
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
میر مہدی مجروح
ہر ایک جانتا ہے کہ مجھ پر نظر پڑی
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ سحر کار میں
میر مہدی مجروح