EN हिंदी
محفوظ الرحمان عادل شیاری | شیح شیری

محفوظ الرحمان عادل شیر

36 شیر

آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے
دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے

محفوظ الرحمان عادل




ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے
کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا

محفوظ الرحمان عادل




ہوا کے رحم و کرم پر ہوں بے ٹھکانہ ہوں
شجر سے ٹوٹا ہوا ایک زرد پتا ہوں

محفوظ الرحمان عادل




جنتیں تو پیشواؤں نے ہی مل کر بانٹ لیں
ہم کو الجھایا گیا ہے دوزخوں کے درمیاں

محفوظ الرحمان عادل




جو تیری زلف کے سائے میں چند دن گزرے
وہ غم کی دھوپ میں یاد آئے سائباں کی طرح

محفوظ الرحمان عادل




خود مرے آنسو چمک رکھتے ہیں گوہر کی طرح
میری چشم آرزو میں ماہ و اختر کچھ نہیں

محفوظ الرحمان عادل




کیوں زمانہ ہی بدلتا ہے تجھے
تو زمانے کو بدلتا کیوں نہیں

محفوظ الرحمان عادل




مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا

محفوظ الرحمان عادل




میرا ظاہر دیکھنے والے مرا باطن بھی دیکھ
گھر کے باہر ہے اجالا گھر کے اندر کچھ نہیں

محفوظ الرحمان عادل