ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے
کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا
محفوظ الرحمان عادل
آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے
دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے
محفوظ الرحمان عادل
دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب
چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا
محفوظ الرحمان عادل
بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو
میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں
محفوظ الرحمان عادل
بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری
بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا
محفوظ الرحمان عادل
بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے
اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر
محفوظ الرحمان عادل
اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں
گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا
محفوظ الرحمان عادل
اب تک اسی معمے میں الجھا ہوا ہوں میں
لائی ہے زندگی مجھے کیوں اس جہان تک
محفوظ الرحمان عادل
اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سے
اب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا
محفوظ الرحمان عادل