EN हिंदी
محفوظ الرحمان عادل شیاری | شیح شیری

محفوظ الرحمان عادل شیر

36 شیر

آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے
دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے

محفوظ الرحمان عادل




آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں
یا ستارے رقصاں ہیں رات کے اندھیرے میں

محفوظ الرحمان عادل




اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سے
اب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا

محفوظ الرحمان عادل




اب تک اسی معمے میں الجھا ہوا ہوں میں
لائی ہے زندگی مجھے کیوں اس جہان تک

محفوظ الرحمان عادل




اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں
گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا

محفوظ الرحمان عادل




بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے
اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر

محفوظ الرحمان عادل




بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری
بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا

محفوظ الرحمان عادل




بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو
میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں

محفوظ الرحمان عادل




دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب
چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا

محفوظ الرحمان عادل