جو ہے تازگی مری ذات میں وہی ذکر و فکر چمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو مری روح میرے وطن میں ہے
حنیف اخگر
جب بھی اس زلف پریشاں کی ہوا آتی ہے
ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
حنیف اخگر
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
حنیف اخگر
عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
آگ میں جیسے سمندر دیکھا
حنیف اخگر
حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی
حسین انداز دل نوازی حسین تر ناز برہمی کا
حنیف اخگر
ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوق اسیری
ہر پاؤں میں زنجیر ہے میں دیکھ رہا ہوں
حنیف اخگر
ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار
کچھ ٹھکانہ ہے بھلا اس جذبۂ تعمیر کا
حنیف اخگر
فقدان عروج رسن و دار نہیں ہے
منصور بہت ہیں لب اظہار نہیں ہے
حنیف اخگر
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچائیوں کی آخری پہچان کی طرح
حنیف اخگر