حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی
حسین انداز دل نوازی حسین تر ناز برہمی کا
حنیف اخگر
آئنے میں ہے فقط آپ کا عکس
آئنہ آپ کی صورت تو نہیں
حنیف اخگر
ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار
کچھ ٹھکانہ ہے بھلا اس جذبۂ تعمیر کا
حنیف اخگر
فقدان عروج رسن و دار نہیں ہے
منصور بہت ہیں لب اظہار نہیں ہے
حنیف اخگر
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچائیوں کی آخری پہچان کی طرح
حنیف اخگر
دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں کار جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
حنیف اخگر
بے شک اسیر گیسوئے جاناں ہیں بے شمار
ہے کوئی عشق میں بھی گرفتار دیکھنا
حنیف اخگر
بزم کو رنگ سخن میں نے دیا ہے اخگرؔ
لوگ چپ چپ تھے مری طرز نوا سے پہلے
حنیف اخگر
عجب ہے عالم عجب ہے منظر کہ سکتہ میں ہے یہ چشم حیرت
نقاب الٹ کر وہ آ گئے ہیں تو آئنے گنگنا رہے ہیں
حنیف اخگر