دل میں بھری ہے خاک میں ملنے کی آرزو
خاکستری ہوا ہے ہماری قبا کا رنگ
حبیب موسوی
فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے
حبیب موسوی
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
حبیب موسوی
اصل ثابت ہے وہی شرع کا اک پردہ ہے
دانے تسبیح کے سب پھرتے ہیں زناروں پر
حبیب موسوی
حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر
سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے
حبیب موسوی
جا سکے نہ مسجد تک جمع تھے بہت زاہد
میکدے میں آ بیٹھے جب نہ راستا پایا
حبیب موسوی
جب کہ وحدت ہے باعث کثرت
ایک ہے سب کا راستا واعظ
حبیب موسوی
جو لے لیتے ہو یوں ہر ایک کا دل باتوں باتوں میں
بتاؤ سچ یہ چالاکی تمہیں کس نے سکھائی تھی
حبیب موسوی
کرو باتیں ہٹاؤ آئنہ بس بن چکے گیسو
انہیں جھگڑوں ہی میں اس دن بھی کتنی رات آئی تھی
حبیب موسوی