EN हिंदी
حبیب موسوی شیاری | شیح شیری

حبیب موسوی شیر

39 شیر

یوں آتی ہیں اب میرے تنفس کی صدائیں
جس طرح سے دیتا ہے کوئی نوحہ گر آواز

حبیب موسوی




زباں پر ترا نام جب آ گیا
تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے

حبیب موسوی




غربت بس اب طریق محبت کو قطع کر
مدت ہوئی ہے اہل وطن سے جدا ہوئے

حبیب موسوی




بہت دنوں میں وہ آئے ہیں وصل کی شب ہے
موذن آج نہ یا رب اٹھے اذاں کے لئے

حبیب موسوی




برہمن شیخ کو کر دے نگاہ ناز اس بت کی
گلوئے زہد میں تار نظر زنار بن جائے

حبیب موسوی




بتان سرو قامت کی محبت میں نہ پھل پایا
ریاضت جن پہ کی برسوں وہ نخل بے ثمر نکلے

حبیب موسوی




چاندنی چھپتی ہے تکیوں کے تلے آنکھوں میں خواب
سونے میں ان کا دوپٹہ جو سرک جاتا ہے

حبیب موسوی




دشت و صحرا میں حسیں پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے
آج کل خانۂ امید ہے ویراں کس کا

حبیب موسوی




دل لیا ہے تو خدا کے لئے کہہ دو صاحب
مسکراتے ہو تمہیں پر مرا شک جاتا ہے

حبیب موسوی