عافیت کی امید کیا کہ ابھی
دل امیدوار باقی ہے
حبیب احمد صدیقی
فیض ایام بہار اہل قفس کیا جانیں
چند تنکے تھے نشیمن کے جو ہم تک پہنچے
حبیب احمد صدیقی
گلوں سے اتنی بھی وابستگی نہیں اچھی
رہے خیال کہ عہد خزاں بھی آتا ہے
حبیب احمد صدیقی
ہائے بیداد محبت کہ یہ ایں بربادی
ہم کو احساس زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے
حبیب احمد صدیقی
ہے نوید بہار ہر لب پر
کم نصیبوں کو اعتبار نہیں
حبیب احمد صدیقی
ہر قدم پر ہے احتساب عمل
اک قیامت پہ انحصار نہیں
حبیب احمد صدیقی
ہزاروں تمناؤں کے خوں سے ہم نے
خریدی ہے اک تہمت پارسائی
حبیب احمد صدیقی
اک فصل گل کو لے کے تہی دست کیا کریں
آئی ہے فصل گل تو گریباں بھی چاہئے
حبیب احمد صدیقی