EN हिंदी
حبیب احمد صدیقی شیاری | شیح شیری

حبیب احمد صدیقی شیر

35 شیر

ایک کعبہ کے صنم توڑے تو کیا
نسل و ملت کے صنم خانے بہت

حبیب احمد صدیقی




آپ شرمندہ جفاؤں پہ نہ ہوں
جن پہ گزری تھی وہی بھول گئے

حبیب احمد صدیقی




آشنا جب تک نہ تھا اس کی نگاہ لطف سے
واردات قلب کو حسن بیاں سمجھا تھا میں

حبیب احمد صدیقی




اب بہت دور نہیں منزل دوست
کعبے سے چند قدم اور سہی

حبیب احمد صدیقی




اب تو جو شے ہے مری نظروں میں ہے ناپائیدار
یاد آیا میں کہ غم کو جاوداں سمجھا تھا میں

حبیب احمد صدیقی




اپنے دامن میں ایک تار نہیں
اور ساری بہار باقی ہے

حبیب احمد صدیقی




بصد ادائے دلبری ہے التجائے مے کشی
یہ ہوش اب کسے کہ مے حرام یا حلال ہے

حبیب احمد صدیقی




بتائے کون کسی کو نشان منزل زیست
ابھی تو حجت باہم ہے رہ گزر کے لئے

حبیب احمد صدیقی




چشم صیاد پہ ہر لحظہ نظر رکھتا ہے
ہائے وہ صید جو کہنے کو تہ دام نہیں

حبیب احمد صدیقی