EN हिंदी
گویا فقیر محمد شیاری | شیح شیری

گویا فقیر محمد شیر

24 شیر

گر ہمارے قتل کے مضموں کا وہ نامہ لکھے
بیضۂ فولاد سے نکلیں کبوتر سیکڑوں

گویا فقیر محمد




دماغ اور ہی پاتی ہیں ان حسینوں میں
یہ ماہ وہ ہیں نظر آئیں جو مہینوں میں

گویا فقیر محمد




در پہ نالاں جو ہوں تو کہتا ہے
پوچھو کیا چیز بیچتا ہے یہ

گویا فقیر محمد




بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

گویا فقیر محمد




اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا
دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں

گویا فقیر محمد




اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی
آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی

گویا فقیر محمد