EN हिंदी
احمد عطا شیاری | شیح شیری

احمد عطا شیر

28 شیر

آج دیکھا ہے اسے ایسی محبت سے عطاؔ
وہ یہی بھول گیا اس کو کہیں جانا تھا

احمد عطا




اب یہاں کون نکالے گا بھلا دودھ کی نہر
عشق کرتا ہے تو جیسا بھی ہے اچھا ہے میاں

احمد عطا




باغ ہوس میں کچھ نہیں دل ہے تو خوش نما ہے دل
آگ لگائے گی طلب ہوگا یہ خس تباہ کن

احمد عطا




ہنستے ہنستے ہو گیا برباد میں
خوش دلی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا

احمد عطا




ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دیے
بہ وقت گریہ ہم ایسے تھے، سارے جیسے ہیں

احمد عطا




ہم آستان خدائے سخن پہ بیٹھے تھے
سو کچھ سلیقے سے اب زندگی تباہ کریں

احمد عطا




ہم بہکتے ہوئے آتے ہیں ترے دروازے
تیرے دروازے بہکتے ہوئے آتے ہیں ہم

احمد عطا




ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر

احمد عطا




ہماری عمر سے بڑھ کر یہ بوجھ ڈالا گیا
سو ہم بڑوں سے بزرگوں کی طرح ملتے ہیں

احمد عطا