کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم
عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں
احمد عطا
کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا
احمد عطا
ہماری عمر سے بڑھ کر یہ بوجھ ڈالا گیا
سو ہم بڑوں سے بزرگوں کی طرح ملتے ہیں
احمد عطا
ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر
احمد عطا
ہم بہکتے ہوئے آتے ہیں ترے دروازے
تیرے دروازے بہکتے ہوئے آتے ہیں ہم
احمد عطا
ہم آستان خدائے سخن پہ بیٹھے تھے
سو کچھ سلیقے سے اب زندگی تباہ کریں
احمد عطا
ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دیے
بہ وقت گریہ ہم ایسے تھے، سارے جیسے ہیں
احمد عطا
ہنستے ہنستے ہو گیا برباد میں
خوش دلی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا
احمد عطا
باغ ہوس میں کچھ نہیں دل ہے تو خوش نما ہے دل
آگ لگائے گی طلب ہوگا یہ خس تباہ کن
احمد عطا