بے وفائی کا مجھے الزام دیتا تھا وہ شخص
میں نے بھی اتنا کیا بس اس کو سچا کر دیا
ؔسراج عالم زخمی
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں میں ایسا لگتا ہے
مرا گمان ہے تو اور ترا قیاس ہوں میں
ؔسراج عالم زخمی
دل میں رہ رہ کے شور اٹھتا ہے
کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا
ؔسراج عالم زخمی
دل میں طوفان نہیں آنکھ میں سیلاب نہیں
ایسے جینے سے تو بہتر تھا کہ مر ہی جاتے
ؔسراج عالم زخمی
اتنا نہ دور جاؤ کہ جینا محال ہو
یوں بھی نہ پاس آؤ کہ دم ہی نکل پڑے
ؔسراج عالم زخمی
خود کو بچاؤں جسم سنبھالوں کہ روح کو
بکھرا ہوا ہے درد یہاں سے وہاں تلک
ؔسراج عالم زخمی
کوئی شکوہ کوئی گلہ دے دے
مجھ کو جینے کا حوصلہ دے دے
ؔسراج عالم زخمی
کیا ہمسری کی ہم سے تمنا کرے کوئی
ہم خود بھی اپنے قد کے برابر نہ ہو سکے
ؔسراج عالم زخمی
صدائے دل کو کہیں باریاب ہونا تھا
مرے سوال کا کچھ تو جواب ہونا تھا
ؔسراج عالم زخمی