EN हिंदी
شمس فرخ آبادی شیاری | شیح شیری

شمس فرخ آبادی شیر

4 شیر

آنکھیں دھوکا دے گئیں پاؤں چھوڑ گئے ساتھ
سبھی سہارے دور ہیں کس کا پکڑیں ہاتھ

شمس فرخ آبادی




بھلے برے برتاؤ کا ہے اتنا سا راز
گونجے پلٹ کے جس طرح گنبد کی آواز

شمس فرخ آبادی




بچھڑے ہوؤں کے آج پھر خط کچھ ایسے آئے
جیسے پٹری ریل کی دور پہ اک ہو جائے

شمس فرخ آبادی




ایک بگولہ سانس کا ہوا جسے تیرائے
ہوا ہوا میں جا ملے بس ماٹی رہ جائے

شمس فرخ آبادی