EN हिंदी
شاہد ماہلی شیاری | شیح شیری

شاہد ماہلی شیر

3 شیر

خوں کا سیلاب تھا جو سر سے ابھی گزرا ہے
بام و در اب بھی سسکتے ہیں مگر گھر چپ ہیں

شاہد ماہلی




پھیلا ہوا ہے جسم میں تنہائیوں کا زہر
رگ رگ میں جیسے ساری اداسی اتر گئی

شاہد ماہلی




رنگ بے رنگ ہوا ڈوب گئیں آوازیں
ریت ہی ریت ہے اب لاش اٹھائی جائے

شاہد ماہلی