ایسے کچھ حادثے بھی گزرے ہیں
جن پہ میں آج تک نہیں روئی
سیما غزل
بے قراری سے مرے پاس وہ آیا لیکن
اس نے پوچھا بھی تو بس یہ کہ فلاں کیسا ہے
سیما غزل
ایک آواز میں نے سنی تھی ابھی کون بولا تھا یہ تو خبر ہی نہیں
یہ تعلق ضروری ہے کس نے کہا وہ بھی خاموش تھا میں بھی خاموش تھی
سیما غزل
جذبوں پر جب برف جمے تو جینا مشکل ہوتا ہے
دل کے آتش دان میں تھوڑی آگ جلانی پڑتی ہے
سیما غزل
خود اپنے آپ سے ملنے کی خاطر
ابھی کوسوں مجھے چلنا پڑے گا
سیما غزل
میں ایک روز اسے ڈھونڈ کر تو لے آؤں
وہ اپنی ذات سے باہر کہیں ملے تو سہی
سیما غزل
میں نے کہا تھا مجھ کو اندھیرے کا خوف ہے
اس نے یہ سن کے آج مرا گھر جلا دیا
سیما غزل
مجھ کو اس کے نہیں خود میرے حوالے کرتے
کم سے کم یہ تو مرے چاہنے والے کرتے
سیما غزل
سرد ہوتے ہوئے وجود میں بس
کچھ نہیں تھا الاؤ آنکھیں تھیں
سیما غزل