اے شمع اہل بزم تو بیٹھے ہی رہ گئے
کہنے کی تھی جو بات وہ پروانہ کہہ گیا
ساحر سیالکوٹی
بڑھی ہے خانۂ دل میں کچھ اور تاریکی
چراغ عشق جلایا تھا روشنی کے لیے
ساحر سیالکوٹی
گلوں کو توڑتے ہیں سونگھتے ہیں پھینک دیتے ہیں
زیادہ بھی نمائش حسن کی اچھی نہیں ہوتی
ساحر سیالکوٹی
ہوتی ہے دوسروں کو ہمیشہ یہ ناگوار
اپنے سوا کسی کو نصیحت نہ کیجیئے
ساحر سیالکوٹی
خلوص شوق میں ساحرؔ بڑی تاثیر ہوتی ہے
وہیں کعبہ سمٹ آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
ساحر سیالکوٹی
سنبھل کر پاؤں رکھنا وادئ عشق و محبت میں
یہاں جو سیر کو آتا ہے بچ کر کم نکلتا ہے
ساحر سیالکوٹی
یہ کیوں کر مان لیں الفت ہمیں کرنی نہیں آتی
کیا ہے کام ہی کیا اور الفت کے سوا ہم نے
ساحر سیالکوٹی